۱ | تہمتیں چند اپنے ذمّے دھر چلے | ||
جس لئے آئے تھے سو ہم کر چلے | ![]() |
![]() |
|
۲ | زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے | ||
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے | ![]() |
||
۳ | کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا | ||
ایک دم آئے ادھر اودھر چلے | ![]() |
||
۴ | دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس | ||
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے | ![]() |
||
۵ | آہ بس جی مت جلا تب جانئے | ||
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے | ![]() |
||
۶ | ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست | ||
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے | ![]() |
||
۷ | شمع کے مانند ہم اس بزم میں | ||
چشمتر آئے تھے دامنتر چلے | ![]() |
||
۸ | ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے | ||
شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے | ![]() |
||
۹ | ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے | ||
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے | ![]() |
||
۱۰ | ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے | ||
ساتھ اپنے اب اسے لےکر چلے | ![]() |
||
۱۱ | جوں شرر اے ہستیِ بےبود یاں | ||
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے | ![]() |
||
۱۲ | ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلائو | ||
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے | ![]() |
||
۱۳ | درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب | ||
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے | ![]() |
![]() |
|