۱ | کیوں دلا ہم ہوے پابندِ غمِ یار کہ تو | ||
اب اذیّت میں بھلا ہم ہیں گرفتار کہ تو | |||
۲ | ہم تو کہتے تھے نہ عاشق ہو اب اتنا تو بتا | ||
جا کے ہم روتے ہیں پہروں پسِ دیوار کہ تو | |||
۳ | ہاتھ کیوں عشقِ بتاں سے نہ اٹھایا تو نے | ||
کفِ افسوس ہم اب ملتے ہیں ہر بار کہ تو | |||
۴ | وہ ہی محفل ہے وہی لوگ وہی چرچا ہے | ||
اب بھلا بیٹھے ہیں ہم شکلِ گنہگار کہ تو | |||
۵ | ہم تو کہتے تھے کہ لب سے نہ لگا ساغرِ عشق | ||
میِ اندوہ سے اب ہم ہوے سرشار کہ تو | |||
۶ | بےجگہ جی کا پھنسانا تھا تجھے کیا درکار | ||
طعن و تشنیع کے اب ہم ہیں سزاوار کہ تو | |||
۷ | وحشتِ عشق بری ہوتی ہے دیکھا ناداں | ||
ہم چلے دشت کو اب چھوڑ کے گھر بار کہ تو | |||
۸ | آتشِ عشق کو سینے میں عبا بھڑکایا | ||
اب بھلا کھینچوں ہوں میں آۂ شرربار کہ تو | |||
۹ | ہم تو کہتے تھے نہ ہمراہ کسی کے لگ چل | ||
اب بھلا ہم ہوے رسوا سرِ بازار کہ تو | |||
۱۰ | غور کیجے تو یہ مشکل ہے زمیں اے جرئت | ||
دیکھیں ہم اس میں کہیں اور بھی اشعار کہ تو |
|