۱ | ہستی اپنی حباب کی سی ہے | ||
یہ نمائش سراب کی سی ہے | |||
۲ | نازکی اس کے لب کی کیا کہئے | ||
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے | |||
۳ | چشمِ دل کھول اس بھی عالم پر | ||
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے | |||
۴ | بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں | ||
حالت اب اضطراب کی سی ہے | |||
۵ | نقطۂ خال سے ترا ابرو | ||
بیت اک انتخاب کی سی ہے | |||
۶ | میں جو بولا کہا کہ یہ آواز | ||
اسی خانہ خراب کی سی ہے | |||
۷ | آتشِ غم میں دل بھنا شاید | ||
دیر سے بو کباب کی سی ہے | |||
۸ | دیکھیے ابر کی طرح اب کے | ||
میری چشمِ پر آب کی سی ہے | |||
۹ | میر ان نیم باز آنکھوں میں | ||
ساری مستی شراب کی سی ہے |
|