۱ | ملنے لگے ہو دیر دیر دیکھئے کیا ہے کیا نہیں | ||
تم تو کرو ہو صاحبی بندے میں کچھ رہا نہیں | |||
۲ | بوۓ گل اور رنگِ گل دونوں ہیں دلکش اے نسیم | ||
لیک بقدرِ یک نگاہ دیکھیے تو وفا نہیں | |||
۳ | شکوہ کروں ہوں بخت کا اتنے غضب نہ ہو بتاں | ||
مجھ کو خدا نہ خواستہ تم سے تو کچھ گلا نہیں | |||
۴ | نالے کیا نہ کر سنا نوحے مرے پہ عندلیب | ||
بات میں بات عیب ہے میں نے تجھے کہا نہیں | |||
۵ | چشمِ سفید و اشکِ سرخ آہ دلِ حزیں ہے یاں | ||
شیشہ نہیں ہے مے نہیں ابر نہیں ہوا نہیں | |||
۶ | ایک فقط ہے سادگی تس پہ بلاۓ جاں ہے تو | ||
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں آن نہیں ادا نہیں | |||
۷ | آب و ہواۓ ملکِ عشق تجربہ کی ہے میں بہت | ||
کر کے دواۓ دردِ دل کوئی بھی پھر جیا نہیں | |||
۸ | ہوّے زمانہ کچھ سے کچھ چھوٹے ہے دل لگا مرا | ||
شوخ کسی ہی آن میں تجھ سے تو میں جدا نہیں | |||
۹ | نازِ بتاں اٹھا چکا دیر کو میر ترک کر | ||
کعبے میں جا کے رہ میاں تیرے مگر خدا نہیں |
|