Ghazal ::
Mīr
:
ULTĪ HO GAʾĪ
۱
الٹی
ہو
گئیں
سب
تدبیریں
کچھ
نہ
دوا
نے
کام
کیا
دیکھا
اس
بیماریِ
دل
نے
آخر
کام
تمام
کیا
۲
عہدِ
جوانی
رو
رو
کاٹا
پیری
میں
لیں
آنکھیں
موند
یعنی
رات
بہت
تھے
جاگے
صبح
ہوئی
آرام
کیا
۳
حرف
نہیں
جاں
بخشی
میں
اس
کی
خوبی
اپنی
قسمت
کی
ہم
سے
جو
پہلے
کہہ
بھیجا
سو
مرنے
کا
پیغام
کیا
۴
ناحق
ہم
مجبوروں
پر
یہ
تہمت
ہے
مختاری
کی
چاہتے
ہیں
سو
آپ
کرے
ہیں
ہم
کو
عبث
بدنام
کیا
۵
سارے
رند
اوباش
جہاں
کے
تجھ
سے
سجود
میں
رہتے
ہیں
بانکے
ٹیڑھے
ترچھے
تھیکے
سب
کا
تجھ
کو
امام
کیا
۶
سرزد
ہم
سے
بےادبی
تو
وحشت
میں
بھی
کم
ہی
ہوئی
کوسوں
اس
کی
اور
گئے
پر
سجدہ
ہر
ہر
گام
کیا
۷
کس
کا
کعبہ
کیسا
قبلہ
کون
حرم
ہے
کیا
احرام
کوچہ
کے
اس
کے
باشندوں
نے
سب
کو
یہیں
سے
سلام
کیا
۸
شیخ
جو
ہے
مسجد
میں
ننگا
رات
کو
تھا
مےخانے
میں
جبّہ
خرقہ
کرتا
ٹوپی
مستی
میں
انعام
کیا
۹
کاش
اب
برقع
منہ
سے
اٹھا
دے
ورنہ
پھر
کیا
حاصل
ہے
آنکھ
مندے
پر
ان
نے
گو
دیدار
کو
اپنے
عام
کیا
۱۰
یاں
کے
سپید
و
سیاہ
میں
ہم
کو
دخل
جو
ہے
سو
اتنا
ہے
رات
کو
رو
رو
صبح
کیا
یا
دن
کو
جوں
توں
شام
کیا
۱۱
صبح
چمن
میں
اس
کو
کہیں
تکلیفِ
ہوا
لے
آئی
تھی
رخ
سے
گل
کو
مول
لیا
قامت
سے
سرو
غلام
کیا
۱۲
ساعدِ
سیمیں
دونوں
اس
کے
ہاتھ
میں
لا
کر
چھوڑ
دیے
بھولے
اس
کے
قول
و
قسم
پر
ہائے
خیالِ
خام
کیا
۱۳
کام
ہوے
ہیں
سارے
ضائع
ہر
ساعت
کی
سماجت
سے
استغنا
کی
چوگنی
ان
نے
جوں
جوں
میں
ابرام
کیا
۱۴
ایسے
آہوۓ
رمخوردہ
کی
وحشت
کھونی
مشکل
تھی
سحر
کیا
اعجاز
کیا
جن
لوگوں
نے
تجھ
کو
رام
کیا
۱۵
میر
کے
دین
و
مذہب
کو
اب
پوچھتے
کیا
ہو
ان
نے
تو
قشقہ
کھینچا
دیر
میں
بیٹھا
کب
کا
ترک
اسلام
کیا
Notes for # 13
a missing “ne” (marginally permissible in Mir's day)