۱ | اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا | ||
رنج راحت فزا نہیں ہوتا | |||
۲ | بےوفا کہنے کی شکایت ہے | ||
تو بھی وعدہوفا نہیں ہوتا | |||
۳ | ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم | ||
حرفِ ناصح برا نہیں ہوتا | |||
۴ | کس کو ہے ذوقِ تلخکامی لیک | ||
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا | |||
۵ | تم ہمارے کسی طرح نہ ہوے | ||
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا | |||
۶ | اس نے کیا جانے کیا کیا لےکر | ||
دل کسی کام کا نہیں ہوتا | |||
۷ | امتحاں کیجئے مرا جب تک | ||
شوق زور آزما نہیں ہوتا | |||
۸ | ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے | ||
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا | |||
۹ | آہ طولِ امل ہے روز افزوں | ||
گرچہ اک مدّعا نہیں ہوتا | |||
۱۰ | نارسائی سے دم رکے تو رکے | ||
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا | |||
۱۱ | تم مرے پاس ہوتے ہو گویا | ||
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا | |||
۱۲ | حالِ دل یار کو لکھوں کیونکر | ||
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا | |||
۱۳ | رحم کر خصمِ جانِ غیر نہ ہو | ||
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا | |||
۱۴ | دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو | ||
دستِ عاشق رسا نہیں ہوتا | |||
۱۵ | چارۂ دل سواۓ صبر نہیں | ||
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا | |||
۱۶ | کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومن | ||
صنم آخر خدا نہیں ہوتا |
|