۱ | ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغِ رضواں کا | ||
وہ ایک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا | |||
۲ | بیاں کیا کیجیے بیدادِ کاوشہاۓ مژگاں کا | ||
کہ ہر اک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا | |||
۳ | نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع میرے نالوں کو | ||
لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا | |||
۴ | دکھاؤںگا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے | ||
مرا ہر داغِ دل اک تخم ہے سروۓ چراغاں کا | |||
۵ | کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے | ||
کرے جو پرتوۓ خورشیدِ عالم شبنمستاں کا | |||
۶ | مری تعمیر میں مظمر ہے اک صورت خرابی کی | ||
ہیولا برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا | |||
۷ | اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر | ||
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا | |||
۸ | خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں | ||
چراغِ مردہ ہوں میں بے زباں گورِ غریباں کا | |||
۹ | ہنوز اک پرتوۓ نقشِ خیالِ یار باقی ہے | ||
دلِ افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا | |||
۱۰ | بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ | ||
سبب کیا خواب میں آ کر تبسّمہاۓ پنہاں کا | |||
۱۱ | نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا | ||
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا | |||
۱۲ | نظر میں ہے ہماری جادۂ راۂ فنا غالب | ||
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزاۓ پریشاں کا |
|